ساس اور بہو |
نکاح
انسان کی زندگی میں انتہائی اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے والدین کے ہاں جب بیٹا پیدا
ہوتا ہے تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا،ماں باپ بڑے پیار اور محبت سے
اپنے لاڈلے کی پرورش میں لگ جاتے ہیں،دنیا کا ہر دکھ اور مصیبت برداشت کر کے اپنے
بیٹے کو آرام و سکون مہیا کرتے ہیں،ایثار و قربانی کی نادر مثالیں پیش کر کے بچے کی
تعلیم و تربیت اور اس کے مستقبل کے لئے دن رات ایک کر دیتے ہیں۔ننھا منا پودا دیکھتے
ہی دیکھتے تناور درخت بن جاتا ہے تو بوڑھے والدین کی رگوں میں جوان خون دوڑنے لگتا
ہے نوجوان بیٹا والدین کی تمناؤں اور حسین خوابوں کا مرکز بن جاتا ہے،جوانی کی دہلیز
پر قدم رکھتے ہی والدین کو بیٹے کی شادی کی فکر لاحق ہوجاتی ہے۔
ماں
باپ اپنے پیارے بیٹے کے لئے ایسی بہو تلا ش کر نے کی کوشش کرتے ہیں جو لاکھوں میں
ایک ہو،مبارک وسلامتی کی دعاؤں کے ساتھ بہو گھر آ جاتی ہے مشکل سے چند ہفتے گزرتے
ہیں کہ موسم بہار،خزاں میں بدلنے لگتا ہے۔والدین جو اس دنیا میں اولاد کے لئے رب کی
حیثیت رکھتے ہیں بیٹے کو ان کی نصیحتیں گراں گزرنے لگتی ہیں،بیٹا جو پہلے والدین کی
آنکھوں کا تارا تھا”رن مرید“کہلانے لگتا ہے،بہو جو گھر آنے سے پہلے لاکھوں میں ایک
تھی زمانے بھر کی ”پھوہڑ“ کہلانے لگتی ہے۔نوبت یہاں تک آ جاتی ہے کہ معاشرے کی اس
اہم ترین مثلث بیٹا،بہو،سسرال کا یکجا رہنا مشکل ہو جاتا ہے افسوس کے ساتھ تلخ تحریر
کر رہا ہو ں۔یہاں تصور ایسا ہے کہ بہو سٹین لیس سٹیل کی بنی ہو جو کبھی تھکن محسوس
نہ کرے۔بہری ہو جو ساس اور نند وں کی طنزیہ جملوں کو نہ سن سکے۔گونگی بھی ہو تا کہ
سسرال والے دل آزاری کریں تو وہ جواب نہ دے سکے سونے پہ سہاگہ یہ ہے کہ اندھی بھی
ہو تاکہ آنکھوں سے وہ فرق وزیادتی نہ دیکھ سکے جو ساس اپنی بہو کے لئے روا رکھتی
ہے مثال کے طور پر اگر اپنی بیٹی امید سے ہو تو صبح سویرے دودھ کا گلاس اورسیب اپنی
بیٹی کو دینا لازمی ہے چاہیے شوہر کی آمدنی ہو یا نہیں مگر بہو امید سے ہو اور کبھی
”بد قسمتی“ سے تھوڑا آرام کر نے لگے تو گھر میں ہر آنے والے سے شکوہ کیا جاتا ہے
کہ یہ تو سارا دن سوتی ہے،کام کو ہاتھ نہیں لگا تی۔،ایسا بھی ہوتا ہے کہ گھر میں
برتن،صفائی،کپڑے دھونے کے لئے ماسیاں لگا دی جاتی ہیں تاکہ بیٹی کو یہ سب نہ کرنا
پڑے۔بہو کے آتے ہی حکم صادر ہو جاتا ہے کہ بہو آگئی ہے خود بیٹی والی ہو کر دوسروں
کو خون کے آنسو رلانے والی ساس جب تک اپنی بہو کو بیٹی تسلیم نہیں کرے گی اس کی بیٹی
کو بھی سسرال میں پندرہ پندرہ پراٹھے ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر پکانے پڑیں گے۔امید
سے ہونے کے باوجو د گھر کا فرش چمکانا ہو گا۔آج کل کیا لوگوں کو خوف خدا نہیں ہے؟
”ساس“ سمجھتی نہیں یا سمجھنا نہیں چاہتی۔اگر آپ کی بیٹی بھی سسرال میں زیادتیوں کا
شکار ہے تو وہاں بھی ایک عدد ”ساس“ موجود ہے۔کاش ساس کے دل میں خد ا کا خوف ہو کہ یہ
لڑکی جو میری بہو ہے کسی کا لخت جگر ہے۔جب شادی شدہ بیٹی موبائل فون پر اپنے والدین
کو اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا حال رو رو کر سناتی ہے تو خد اگو اہ ہے بے اختیار
نگاہیں آسمان کی طرف اٹھ جاتی ہیں۔
”اے
پاک پروردگار! بیٹیاں دی ہیں تو ان کا نصیب بھی اچھا لکھنا“۔جب تک بیٹی ماں باپ کے
گھر ہو تی ہے تو یہی سوچ رہتی ہے کہ معقول رشتہ نہیں ملتا،عموماً لڑکیاں اعلیٰ تعلیم
یافتہ ہوتی ہیں مگر لڑکے برائے نام تعلیم کے ساتھ بیس،پچیس ہزار ماہوار کی ملازمت
پر ہوتے ہیں۔اس زمانے میں اتنی قلیل آمدنی میں گزارہ مشکل ہو تا ہے پھر بھی والدین
رشتہ طے کر دیتے ہیں کہ بچی کی عمر بڑھتی جا رہی ہے۔شادی کے بعد بہو کو سسرال میں
سب کے ساتھ ایڈجسٹ کرنا ہوتا ہے۔نندوں کی برابری نہیں کرنی،جیٹھ اور جیٹھانی کی
فرمانبرداری،دیوروں کے کپڑے استری کرنے سے مہمانوں کی خاطر داری کرنے تک سب کو راضی
کرنا بہو کی زمہ داریوں میں شامل ہے۔اگر شادی کو چھ ماہ ہو گئے ہوں اور امید نہ لگی
ہو تو بہو کی شامت آجاتی ہے۔ہر آئی گئی عورت کے ٹونے ٹوٹکے اس پر آزمانا شروع ہو
جاتے ہیں،ساتھ ہی طعنوں اور بیٹے کی دوسری شادی کے تذکرے بھی شروع ہو جاتے ہیں۔ایسے
میں بہو،نہ جیتی ہے نہ مرتی ہے۔ایک عذاب ِ مسلسل میں مبتلا ہو جاتی ہے اور پھر اگر
اللہ پاک نے کرم دیا اور اولاد ہو گئی لیکن بیٹی پیدا ہو گئی تو بھی بہو کی شامت آ
جاتی ہے یہ منحوس ہے بیٹیاں پیدا کرتی ہے،ہمارے خاندان کی نسل آگے کیسے بڑھے گی وغیرہ۔بیٹے
کی دوسری شادی کے چرچے شروع ہو جاتے ہیں۔ اور والدین ہیں جو ہمیشہ اپنی بیٹیوں کو یہی
درس دیتے ہیں درگزر کرو! سسرال ہی تمہارا اصل گھر ہے،وہ تمھارے والدین ہیں،ہماری
تربیت اور عزت کا مان رکھنا۔سسرال والوں کی خدمت کرنا،اپنے شوہر کی فرمانبرداری
کرنا کیونکہ یہی ہمارے مذہب اور دین کا حکم ہے کیونکہ کہ بیٹیوں کا کوئی گھر نہیں
ہوتا اس سوچ نے کتنے گھر تباہ کر دیئے ہاں اگر ہر ماں اپنی بیٹی کی اچھی تربیت
کرے،اسے سلیقہ شعار بنا کے گھر داری اور رشتے ناطوں کا احترام سکھائے اور ساتھ ہی
محبت کا وہی رویہ بہو کے ساتھ رکھے،وہی دامن شفقت بہو کے لئے بھی پھیلائے تو یقین
جانیں ہر ماں کی بیٹی سکھی رہی گی۔اور ہر بہو کو اچھی ساس ملے گی اور ہر سا س کو
اچھی بہو۔اصلاح کا آغاز ہم نے خود سے کرنا ہے۔معاشرے سے تلخیاں کم ہوں گی اور گھر
پرسکون رہیں گے۔ہر ساس کی جب یہ سوچ ہو جائے گی کہ یہ بہو نہیں میری بیٹی ہے تو میرا
ایمان ہے کہ ان کی اپنی بیٹی بھی سسرال میں با عزت زندگی گزارے گی۔ان شاء اللہ
1 Comments
May Allah bless you with many successes
ReplyDelete