حضرت
خدیجۃ رضی
اللہ عنہاکی خدمات
اسلام
حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا
خدیجہ
بنت خویلد (پیدائش: 556ء– وفات: 30 اپریل 619ء) مکہ کی ایک معزز، مالدار، عالی نسب
خاتون جن کا تعلق عرب کے قبیلے قریش سے تھا۔ جو حسن صورت و سیرت کے لحاظ سے
"طاہرہ" کے لقب سے مشہور تھیں۔ انھوں نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
کو تجارتی کاروبار میں شریک کیا اور کئی مرتبہ اپنا سامانِ تجارت دے کر بیرون ملک
بھیجا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاجرانہ حکمت، دیانت، صداقت، محنت اور
اعلیٰ اخلاق سے اتنی متاثر ہوئیں کہ آپ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شادی
کا پیغام بھجوایا۔ جس کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے بڑوں کے مشورے سے
قبول فرمایا۔ اس وقت ان کی عمر چاليس سال تھی جبکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
صرف پچیس سال کے تھے۔ خدیجہ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور پہلی ام المومنین
ہونے کی سعادت حاصل کی۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ساری کی ساری اولاد خدیجہ
سے پیدا ہوئی اورصرف ابراہیم جو ماریہ قبطیہ سے تھے جو اسکندریہ کے بادشاہ اور قبطیوں
کے بڑے کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بطور ہدیہ پیش کی گئی تھیں۔[1]
نام و نسب
خدیجہ
نام، ام ہند کنیت، طاہرہ لقب، سلسلہ نسب یہ ہے۔ خدیجہ بنت خویلد بن اسد بن عبد
العزی بن قصی، قصی پر پہنچ کر ان کا خاندان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے
مل جاتا ہے۔ والدہ کا نام فاطمہ بنت زائدہ تھا اور لوی بن غالب کے دوسرے بیٹے عامر
کی اولاد تھیں۔
خدیجہ
کے والد اپنے قبیلے میں نہایت معزز شخص تھے۔ مکہ آکر اقامت کی، عبد الدارین ابن قصی
کے جوان کے ابن عم تھے، حلیف بنے اور یہیں فاطمہ بنت زائدہ سے شادی کی، جن کے بطن
سے عام الفیل سے 15 سال قبل خدیجہ پیدا ہوئیں[2]، سنِ
شعور کو پہنچیں تو اپنے پاکیزہ اخلاق کی بنا پر طاہرہ کے لقب سے مشہور ہوئیں۔[3]
شجرہ
نسب
خدیجہ بنت خویلد بن اسد بن عبد العزی
بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ۔ [4]
نکاح
باپ
نے صفات کا لحاظ رکھ کر شادی کے لیے ورقہ بن نوفل کو جو برادر زادہ اور تورات و
انجیل کے بہت بڑے عالم تھے، منتخب کیا، لیکن پھر کسی وجہ سے یہ نسبت نہ ہو سکی اور
ابو ہالہ بن بناش تمیمی سے نکاح ہو گیا۔
ابو ہالہ کے بعد عتیق بن عابد مخزومی
کے عقد نکاح میں آئیں۔
اسی
زمانہ میں حرب الفجار چھڑی، جس میں خدیجہ کے والد لڑائی کے لیے نکلے اور مارے گئے۔[5]یہ عام
الفیل سے 20 سال بعد کا واقعہ ہے۔
تجارت
باپ اور شوہر کے مرنے سے خدیجہ کو سخت
دقت واقع ہوئی، ذریعہ معاش تجارت تھی جس کا کوئی نگران نہ تھا تاہم اپنے اعزہ کو
مال تجارت دیکر بھیجتی تھیں، ایک دفعہ مال کی روانگی کا وقت آیا تو ابو طالب نے
محمد بن عبد اللہ سے کہا کہ تم کو خدیجہ سے جا کر ملنا چاہیے، ان کا مال شام جائے
گا۔ بہتر ہے کہ تم بھی ساتھ لے جاتے، میرے پاس روپیہ نہیں ورنہ میں خود تمھارے لیے
سرمایہ مہیا کر دیتا۔
رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہرت "امین" کے لقب سے تمام مکہ میں تھی اور
آپ کے حسن معاملت، راست بازی، صدق و دیانت اور پاکیزہ اخلاقی کا چرچا عام تھا، خدیجہ
کو اس گفتگو کی خبر ملی تو فوراً پیغام بھیجا کہ "آپ میرا مال تجارت لے کر
شام جائیں، جو معاوضہ اوروں کو دیتی ہوں آپ کو اس کا مضاعف دوں گی۔" محمد صلی
اللہ علیہ وسلم نے قبول فرما لیا اور مالِ تجارت لے کر میسرہ (غلام خدیجہ) کے
ہمراہ بصرٰی تشریف لے گئے، اس سال کا نفع سال ہائے گزشتہ کے نفع سے مضاعف تھا۔[6]
آپﷺ سے نکاح
خدیجہ کی دولت و ثروت اور شریفانہ
اخلاق نے تمام قریش کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا اور ہر شخص ان سے نکاح کا خواہاں
تھا، لیکن کارکنان قضا و قدر کی نگاہ انتخاب کسی اور پر پڑ چکی تھی، محمد صلی اللہ
علیہ و آلہ وسلم مال تجارت لے کر شام سے واپس آئے تو خدیجہ نے شادی کا پیغام بھیجا،
نفیسہ بنت مینہ (یعلی بن امیہ کی ہمشیر) اس خدمت پر مقرر ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے منظور فرمایا، اور شادی کی تاریخ مقرر ہو گئی، خدیجہ کے والد اگرچہ وفات
پا چکے تھے تاہم ان کے چچا عمرو بن اسد زندہ تھے، عرب میں عورتوں کو یہ آزادی حاصل
تھی کہ شادی بیاہ کے متعلق خود گفتگو کر سکتی تھیں، اسی بنا پر خدیجہ نے چچا کے
ہوتے ہوئے خود براہ راست تمام مراتب طے کیے۔
تاریخ
معین پر ابو طالب اور تمام رؤسائے خاندان جن میں حمزہ بن عبد المطلب بھی تھے، خدیجہ
کے مکان پر آئے، حضرت خدیجہ نے بھی اپنے خاندان کے چند بزرگوں کو جمع کیا تھا، ابو
طالب نے خطبہ نکاح پڑھا۔ عمروبن اسد کے مشورہ سے 500 طلائی درہم مہر قرار پایا اور
خدیجہ طاہرہ حرم نبوت ہو کر ام المومنین کے شرف سے ممتاز ہوئیں، اس وقت محمد صلی
اللہ علیہ وسلم پچیس سال کے تھے اور خدیجہ کی عمر چالیس برس کی تھی۔ یہ بعثت سے
پندرہ سال قبل کا واقعہ ہے۔[7]
اولاد
حضرت محمد صلی
اللہ علیہ وسلم سے چھ اولادیں پیدا ہوئیں، دو صاحبزادے جو بچپن میں انتقال کر گئے
اور چار صاحبزادیاں نام حسب ذیل ہیں:
·
قاسم
بن محمد، جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے بیٹے تھے، انہی کے نام پر آپ
ابو القاسم کنیت کرتے تھے، صغر سنی میں مکہ میں انتقال کیا، اس وقت پیروں پر چلنے
لگے تھے۔
·
زینب
بنت محمد ،جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی صاحبزادی تھیں۔
·
عبد
اللہ بن محمد نے بہت کم عمر پائی، چونکہ زمانہ نبوت میں پیدا ہوئے تھے، اس لیے طیب
اور طاہر کے لقب سے مشہور ہوئے۔
·
رقیہ
بنت محمد
·
ام
کلثوم بنت محمد
·
فاطمہ
زہرا
اس سب میں ایک ایک سال کا چھٹاپا
بڑاپا تھا، خدیجہ اپنی اولاد کو بہت چاہتی تھیں اور چونکہ دنیا نے بھی ساتھ دیا یعنی
صاحب ثروت تھیں، اس لیے عقبہ کی لونڈی سلمہ کو بچوں کی پرورش پر مقرر کیا تھا، وہ
ان کو کھلاتی و دودھ پلاتی تھیں۔
ازواج
مطہرات میں خدیجہ کو بعض خاص خصوصیتیں حاصل ہیں، وہ جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی بیوی ہیں، وہ
جب عقد نکاح میں آئیں تو ان کی عمر چالیس برس کے قریب تھی، لیکن جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی زندگی میں
دوسری شادی نہیں کی، ابراہیم بن محمد کے سوا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام
اولاد انہی سے پیدا ہوئی۔
فضائل
و مناقب
ام
المومنین طاہرہ کی عظمت و فضیلت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ
وسلم نے جب فرض نبوت ادا کرنا چاہا تو فضائے عالم سے ایک آواز بھی آپ کی تائید میں
نہ اٹھی، کوہ حرا، وادی عرفات، جبل فاران غرض تمام جزیرۃ العرب آپ کی آواز پر پیکر
تصویر بنا ہوا تھا، لیکن اس عالمگیر خاموشی میں صرف ایک آواز تھی جو فضائے مکہ میں
تموج پیدا کر رہی تھی، یہ آواز حضرت خدیجہ طاہرہ کے قلب سے بلند ہوئی تھی، جو اس
ظلمت کدہ کفر و ضلالت میں نور الہی کا دوسرا تجلی گاہ تھا۔
مسند
احمد میں روایت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خدیجہ سے فرمایا، "بخدا میں
کبھی لات و عزی کی پرستش نہ کروں گا" انہوں نے جواب دیا کہ لات کو جانے دیجیے،
عزی کو جانے دیجیے، یعنی ان کا ذکر نہ کیجیے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام
کو ان کی ذات سے جو تقویت تھی وہ سیرت نبوی کے ایک ایک صفحہ سے نمایاں ہے، ابن
ہشام میں ہے۔ "وہ اسلام کے متعلق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی مشیر کار تھیں۔"
محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کو جو محبت تھی، وہ اس سے ظاہر ہے کہ باوجود اس
تمول اور دولت و ثروت کے جو انکو حاصل تھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت خود
کرتی تھیں، چنانچہ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ ایک مرتبہ جبرائیل نے محمد صلی اللہ
علیہ وسلم سے عرض کی کہ خدیجہ برتن میں کچھ لا رہی ہیں۔ آپ ان کو خدا کا اور میرا
سلام پہنچا دیجیے۔[8]محمد
صلی اللہ علیہ وسلم کو زید بن حارثہ سے سخت محبت تھی، لیکن وہ مکہ میں غلام کی حیثیت
سے رہتے تھے، خدیجہ نے ان کو آزاد کرایا اور اب وہ کسی دنیاوی رئیس کے خادم ہونے کی
بجائے شہنشاہ رسالت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے غلام تھے۔
محمد
صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی خدیجہ سے بے پناہ محبت تھی آپ نے ان کی زندگی تک دوسری
شادی نہیں کی، ان کی وفات کے بعد آپ کا معمول تھا کہ جب گھر میں کوئی جانور ذبح
ہوتا تو آپ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کی سہیلیوں کے پاس گوشت بھجواتے تھے، حضرت عائشہ کہتی
ہیں کہ گو میں نے خدیجہ کو نہیں دیکھا، لیکن مجھ کو جس قدر ان پہ رشک آتا تھا کسی
اور پر نہیں آتا تھا، جس کی وجہ یہ تھی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ان کا
ذکر کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے اس پر آپ کو رنجیدہ کیا، لیکن آپ نے فرمایا کہ
خدا نے مجھ کو ان کی محبت دی ہے۔[9]
خدیجہ
کے مناقب میں بہت سی حدیثیں مروی ہیں، صحیح بخاری و مسلم میں ہے: "عورتوں میں
بہترین مریم بنت عمران ہے اور پھر عورتوں میں بہترین خدیجہ بنت خویلد ہیں۔" ایک
مرتبہ جبریل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، خدیجہ آئیں تو فرمایا
"ان کو جنت میں ایک ایسا گھر ملنے کی بشارت سنا دیجیے جو موتی کا ہو گا اور
جس میں شور و غل اور محنت و مشقت نہ ہو گی۔"۔[10]
ربّ العالمین کا سلام اورجنت
میں موتیو ں والے گھر کی بشارت
حضرت
خدیجہ کبری نے 25سال تک محمد
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت کی اور ہر طرح سے آپ صلی الله علیہ وسلم کا
ساتھ دیا۔اسلام کی تبلیغ میں بھی آپ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ان کی خدمات کی بدولت اللہ تعالیٰ نے انہیں
اس دنیا میں ہی جنت کی بشارت دے دی۔حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں:
”جبریل
علیہ السلامنبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا:اللہ کے رسول! یہ خدیجہ
آرہی ہیں،ان کے پاس ایک برتن ہے، جس میں سالن ‘کھانا یا پانی ہے۔جب وہ آپ صلی الله
علیہ وسلم کے پاس آئیں تو ان کو ان کے بلند مرتبہ پروردگار اور میری طرف سے سلام
کہیے اور ان کوجنت میں موتیوں والے گھر کی بشارت دیجیے، جہاں نہ کوئی شور شرابہ
ہوگا اور نہ تھکن ہوگی۔“
اس روایت میں حضرت خدیجہ کے دوخصوصی فضائل کا ذکر ہے:اللہ تعالیٰ اور
جبریل علیہ السلام کا ان کو سلام کرنا۔ان کوجنت میں موتیوں والے گھر کی بشارت
ملنا۔
وفات
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نکاح کے بعد
25 برس تک زندہ رہیں اور 11 رمضان سنہ 10 نبوی (ہجرت سے تین سال قبل) انتقال کیا،[11] اس
وقت ان کی عمر 64 سال 6 ماہ کی تھی، چنانچہ نماز جنازہ اس وقت تک مشروع نہیں ہوئی
تھی۔ اس لیے ان کی میت اسی طرح دفن کر دی گئی۔
جناب
محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کی قبر میں اترے اور اپنی سب سے بڑی غمگسار کو داعی
اجل کے سپرد کیا، حضرت خدیجہ کی قبر حجون میں ہے۔ اور زیارت گاہ خلائق ہے۔
ام
المومنین خدیجہ کی وفات سے تاریخ اسلام میں ایک جدید دور شروع ہوا۔ یہی زمانہ ہے
جو اسلام کا سخت ترین زمانہ ہے۔ اور خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس سال کو عام
الحزن (غم کا سال) فرمایا کرتے تھے کیونکہ ان کے اٹھ جانے کے بعد قریش کو کسی شخص
کا پاس نہیں رہ گیا تھا اور وہ نہایت بےرحمی و بیباکی سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم
کو ستاتے تھے، اسی زمانہ میں آپ اہل مکہ سے ناامید ہو کر طائف تشریف لے گئے۔
حضرت
خدیجہ رضی اللہ عنہا کی خدمات اسلام
سب
سے پہلے ایمان لانا
حضرت
خدیجہ عورتوں،بلکہ سب سے پہلے ایمان لانے والی
اورنبی مکرم صلی الله علیہ وسلم کی پہلی بیوی تھیں ‘دوسرے الفاظ میں آپاسلام کی بھی خاتونِ اوّل تھیں اور نبی
مکرم صلی الله علیہ وسلم کی بھی۔شادی کے بعدحضرت خدیجہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ پچیس سال رہیں ‘اُن کی
زندگی میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے کسی عورت سے شادی نہیں کی۔ حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں:
”لَمْ
یَتَزَوَّج النَّبِیُ صلی الله علیہ وسلم عَلٰی خَدِیْجَةَ حَتّٰی مَاتَتْ ․“[12]
”نبی
اکرم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ کی زندگی میں دوسری شادی نہیں کی، یہاں تک
کہ آپ فوت ہوگئیں۔“
مالی خدمات
حضرت
خدیجہ ؑ کی مالی امداد کی بدولت رسول خداؐ تقریبا غنی اور بے نیاز ہو گئے۔ خداوند
متعال آپؐ کو اپنی عطا کردہ نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
وَوَجَدَكَ
عَائِلاً فَأَغْنَى[13]
ترجمہ:
اور (خدا نے) آپ کو تہی دست پایا تو مالدار بنایا۔
رسول خداؐ خود بھی فرمایا کرتے تھے:
ما
نَفَعَنِي مالٌ قَطُّ ما نَفَعَني (أَو مِثلَ ما نَفَعَني) مالُ خَديجة۔[14]
ترجمہ:
کسی مال نے مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا فائدہ مجھے خدیجہ ؑ کی دولت نے
پہنچایا۔
رسول خداؐ نے خدیجہ ؑ کی ثروت سے
مقروضوں کے قرض ادا کئے؛ یتیموں، تہی دستوں اور بے نواؤں کے مسائل حل کئے۔
شعب
ابی طالب ؑ کے محاصرے کے دوران حضرت خدیجہ ؑ کی دولت بنی ہاشم [اور بنی المطلب] کی
امداد میں صرف ہوئی۔ یہاں تک کی احادیث میں آیا ہے کہ:
أنفق أبو طالب وخديجة جميع مالہما"(ترجمہ: ابو طالب ؑ
اور خدیجہ ؑنے اپنا پورا مال (اسلام اور قلعہ بند افراد کی راہ میں) خرچ کیا۔شعب
ابی طالب میں محاصرے کے دوران حضرت خدیجہ کا بھتیجا حکیم بن حزام گندم اور کھجوروں
سے لدے ہوئے اونٹ لایا کرتا تھا اور بے شمار خطرات اور زحمت و مشقت سے بنی ہاشم کو
پہونچا دیتا تھا۔
یہ
بخشش اس قدر قابل قدر اور خالصانہ تھی کہ خداوند عالم نے اس کی قدر دانی کرتے ہوئے
اس نیک کام کو اپنی طرف سے اپنے حبیب حضرت محمدؐ کو عطا کردہ نعمات میں شمار فرمایا۔ پیغمبر
اکرمؐ بھی اس عظیم المرتبت خاتون کی بخشندگی اور ایثار کو ہمیشہ یاد فرماتے تھے۔
حوصلہ افزائی ودلجوئی
ایک
طرف تو آپ نے شادی کے بعد آپ کی ہر طرح سے
خدمت کی اوراپنا سارا مال و دولت بھی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے لیے وقف کر
دیا۔دوسری طرف جب آپ صلی الله علیہ وسلم کو غار حراء میں نبوت ملی تو آپ نے گھر
آکرسارا واقعہ آپکے گوش گزار کیا ‘ اُس وقت آپ صلی الله علیہ ودسلم کو(بربنائے بشریت)
دلاسے کی جوضرورت تھی اُسے ہماری ماں حضرت خدیجہ کبری رضی اللہ عنہ نے پورا کیا
اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے اوصاف ایسے فصیح و بلیغ انداز میں بیان کیے جو اپنی
مثال آپ ہیں۔آپ نے فرمایا:
کَلَّا
وَاللّٰہِ مَا یُخْزِیْکَ اللّٰہُ اَبَدًا، اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ،
وَتَحْمِلُ الْکَلَّ، وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ، وَتَقْرِی الضَّیْفَ، وَتُعِیْنُ
عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ ․
”خدا
کی قسم!اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم توصلہ
رحمی کرتے ہیں‘ ناتوانوں کا بوجھ اپنے اوپر لیتے ہیں، دوسروں کو مال واخلاق سے
نوازتے ہیں۔ مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق بجانب امور میں مصیبت زدہ لوگوں
کی مدد کرتے ہیں۔“
پھر
حضرت خدیجہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم
کو اپنے چچا کے بیٹے ورقہ بن نوفل کے پاس لے کر گئیں، جس نے سارا واقعہ سن کر کہا:یہ
وہی فرشتہ ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اترا تھا۔
حضرت
خدیجہ کا آپ صلی الله علیہ وسلم کو نبوت
ملنے کے وقت دلاسہ دینا اورپھر آپ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے کرجانا ایسی خصوصیات
ہیں کہ جن تک کوئی بھی نہیں پہنچ سکتا۔
شِعْبِ ابی طالب میں تین سالہ محصوری
مشرکین مکہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اسلام کو روکنے
کے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے یہاں تک کہ انہوں نےآپ کا اور آپ کے خاندان بنو
ہاشم کے ان تمام لوگوں کا بھی جنہوں نے اگرچہ آپ کی دعوت اسلام کو قبول نہیں کیا
تھا لیکن نسبی اور قرابتی تعلق کی وجہ سے آپ کی کسی درجہ میں حمایت کرتے تھے سوشل
بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا اور آپ کے وہ قریبی رشتہ دار بھی شعب ابی طالب میں
محصور کر دیے گئے، کھانے پینے اور بنیادی ضروریات سے محروم کر دیا گیا اور یہ
بائیکاٹ تین سال کے عرصہ تک محیط رہا، یہاں تک کہ ان لوگوں کو کبھی کبھی درختوں کے
پتے کھا کر گزارہ کرنا پڑا۔ ایام محصوری کے اس تین سالہ دور میں حضرت خدیجہ رضی
اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ رہیں۔
بت پرستی سے بیزاری:
دورِ جاہلیت کا عرب معاشرہ بت پرستی میں مبتلا تھا اور
انہیں ان بتوں سے اتنا لگاوٴ تھا کہ ان کے خلاف ایک بات بھی برداشت نہیں کرتے
تھے۔اس اندھیرے دور میں بھی روشنی کی چند گنی چنی شمعیں موجود تھیں، جو فطری طور
پر اس بت پرستی سے نفرت کرتی تھیں۔مردوں میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے علاوہ
حضرت ابوبکر و عثمان رضی الله عنہما قابل ِذکر ہیں‘ جب کہ عورتوں میں حضرت خدیجہ تھیں، جنہیں بت پرستی سے فطری نفرت تھی
۔تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اُس دور کی واحد خاتون تھیں جو شرک اور بت
پرستی سے بے زار تھیں۔آپ کی اسی پاکی کی
بنا پر دورِ جاہلیت میں ہی آپ ”طاہرہ“کے لقب
سے جانی جاتی تھیں۔اس حوالے سے مسند احمد میں ایک روایت نقل کی گئی ہے۔
حضرت
خدیجہ کے ایک پڑوسی کا کہنا ہے کہ انہوں نے نبی
اکرم صلی الله علیہ وسلم کو حضرت خدیجہسے یہ فرماتے
ہوئے سنا ہے:
اَیْ
خَدِیْجَةُ، وَاللّٰہِ لَا اَعْبُدُ اللَّاتَ وَ الْعُزّٰی، وَاللّٰہِ، لَا
اَعْبُدُ اَبَدًا)) قَالَ: فَتَقُوْلُ خَدِیْجَةُ خَلِّ اللَّاتَ: خَلِّ الْعُزّٰی،
قَالَ: کَانَتْ صَنَمَھُمُ الَّتِیْ کَانُوْا یَعْبُدُوْنَ، ثُمَّ یَضْطَجِعُوْنَ․[15]
”
اے خدیجہ! بخدا میں لات اور عزیٰ کی عبادت کبھی نہیں کروں گا‘ خدا کی قسم! میں ان
کی عبادت کبھی نہیں کروں گا“۔راوی کہتے ہیں کہ حضرت خدیجہ
نے جواب میں کہا: آپ لات کو چھوڑیے ‘آپ عزیٰ کو چھوڑیے(یعنی ان کا ذکر بھی نہ کیجیے)۔
راوی کہتے ہیں کہ یہ اُن کے بتوں کے نام تھے، جن کی مشرکین عبادت کرکے اپنے بستروں
پر لیٹتے تھے۔
تکالیف اور مشکلات میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی دل جوئی
حضرت خدیجہ کی اسلام کے بارے میں بہت خدمات ہیں،جن میں
سے ایک یہ بھی ہے کہ جب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت کا آغاز کیا
تو غیروں کے ساتھ ساتھ اپنوں نے بھی ساتھ چھوڑ دیا اور طرح طرح کے مظالم آپ صلی
الله علیہ وسلم پر ڈھائے گئے۔ایسے مواقع پر حضرت خدیجہ کی تسلی اور حوصلہ
مرہم کا کام دیتا تھا۔ا س کے علاوہ نبی مکرم صلی الله علیہ وسلم کو مشرکین کی تردید
اور تکذیب سے جو صدمہ پہنچتا وہ حضرت خدیجہکے
پاس آکر دور ہوجاتا، کیوں کہ وہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو تسلی دیتیں‘ حوصلہ افزائی
کرتیں اور مشرکین عرب کی بدسلوکیوں کو ہلکا کرکے پیش کرتی تھیں۔اس حوالے سے اُ ن
کا یہ قول تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے۔وہ فرماتیں:”یا رسول اللہ !آپ رنجیدہٴ
خاطر نہ ہوں‘بھلا کوئی ایسا رسول آج تک آیا ہے جس سے لوگوں نے تمسخر نہ کیا ہو۔“
مبلغہ اسلام
نبی
کریم صلی الله علیہ وسلم پر سب سے پہلے اسلام لانے والی شخصیت حضرت خدیجہ ہیں۔ایمان لانے کے بعد اسلا م کی خاتونِ اول نے اپنے شوہر کے ساتھ
مل کر اسلام کی تبلیغ کا فریضہ بھی سر انجام دیا اور نبوت کے پہلے تین سالوں میں133لوگ
مشرف بااسلام ہوئے جن میں 27خواتین (حضرت ابوبکر کی زوجہ اسماء‘حضرت عمر کی بہن
فاطمہ ‘اسماء بنت عمیس رضی الله عنہن وغیرہ )بھی شامل تھیں، جو حضرت خدیجہ کی تبلیغ پر مشرف بااسلام ہوئیں(یہی وہ لوگ ہیں جن کو قرآن نے
”السابقون الاولون“کے لقب سے یاد فرمایاہے)۔ اِن خدمات کی وجہ سے حضرت خدیجہ بجا طور پر ”مبلغہ اسلام“کے خطاب کی حق دار ہیں۔
حضرت خدیجہ کی دین اسلام کے بارے میں خدمات کی بنا پر نبی مکرم صلی الله علیہ
وسلم نے اُن کو تمام عورتوں کے لیے
قابل اتباع قرار دیا۔ حضرت انس رضی سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے
فرمایا:
حَسْبُکَ مِنَ نِسَاءِ
الْعَالَمِیْنَ: مَرْیَمُ ابْنَةُ عِمْرَانَ وَخَدِیْجَةُ بِنْتُ خُوَیْلِدٍ، وَ
فَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ، وَآسِیَةُ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ۔[16]
” تمہارے (اتباع و اقتداکرنے) کے لیے چار عورتیں ہی کافی ہیں: مریم
بنت عمران‘خدیجہ بنت خویلد‘ فاطمہ بنت محمد اور فرعون کی بیوی آسیہ۔“
سیرت ابن ہشام میں حضرت خدیجہ کی خدماتِ دین ِ اسلام کے حوالے سے لکھا ہے:
”حضرت خدیجہ اسلام کے حوالے سے نبی
اکرم صلی الله علیہ وسلم کی مشیر تھیں۔“
اُمت محمدیہ کے طبقہ نسواں میں سب سے افضل خاتون
نبی
کریم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ماجدہ حضرت مریم علیہا
السلام کو(سابقہ امتوں کی) اورحضرت خدیجہ کو( اس امت کی )سب سے افضل خاتون قرار دیا ہے۔حضرت علی سے کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے
ہوئے سنا :
خَیْرُ نِسَائِھَا مَرْیَمُ
ابْنَةُ عِمْرَانَ، وَخَیْرُ نِسَائِھَا خَدِیْجَةُ۔[17]
” (سابقہ) امت کی عورتوں میں سب سے افضل مریم بنت عمران ہیں اور (اس) امت کی عورتوں میں سب سے افضل خدیجہ ہیں۔“
[1]
اردو دائرہ معارف اسلا میہ
[3]
ابن الحجر العسقلانی ، الاصابہ
فی تمییز الصحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین، ج 8 ص 60، مکتبہ رحمانیہ لاہور
[4]
ویکیپیڈیا
[5]
طبقات ابن سعد، ج 8 ص 9
[6]
محمد بن سعد ، طبقات ابن سعد، ج 8 ص122، نفیس
اکیڈمی کراچی
[7]
ابن الحجر العسقلانی ، الاصابہ
فی تمییز الصحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین، ج 8 ص 60، مکتبہ رحمانیہ لاہور
[8]
محمد بن اسماعیل البخاری ، صحیح البخاری ج 1 حدیث 539
[9]
امام مسلم بن حجاج بن مسلم القشیری ، صحیح المسلم ، ج 2 حدیث 333
[10]
صحیح بخاری، 55:1
[11]
طبقات ابن سعد، ج 8 ص 11
[12]
صحیح مسلم ج 2 حدیث 1165
[13]
سورۃ الضحیٰ آیت 08
[14]
ابن سعد، الطبقات الكبرى،، ج۳، ص۱۵.
[15]
صحیح مسلم ج 2 حدیث 671
[16]
امام احمد بن حنبل ، مسند احمد ج 1 حدیث 293
[17]
صحیح بخاری 2275
1 Comments
GREAT
ReplyDelete