علم الکیمیاء اور قرآن

 

علم الکیمیا اورقرآن

علم الکیمیا

لغوی تعریف:

کیمیا[انگریزی میں Chemistry ]  عربی زبا ن کا لفظ ہے جس کے معنی اکسیر جس کے متعلق خیال تھا کہ اس سے سونا چاندی بن جایا کرتا ہے ۔[1]

علم الکیمیا او الکیمیا عند القدماء:  وہ علم ہے جس میں بحث کی جائے کہ کس طرح ایک معدنی چیز کو دوسرے کی طرف خصوصا سونے کی طرف تبدیل کر سکتے ہیں اور یا تمام امراض کے لئے دوا کا استنباط ۔ [2]

عند المتاخرین : وہ علم جس میں اجسام کے طبائع و خواص سے بواسطہ حل و ترکیب کے بحث ہو اور نسبت کے وقت کیمیی و کیموی کہتے ہیں۔ [3]

فیروز اللغات کے مطابق کیمیا عربی زبا ن کا لفظ ہے اسم ہے اور مونث ہے جس کے معنی چاندی یا سونا بنانا ، اکسیر، خاصیت و ماہیت اشیاء کا علم [4]

تدبیر ومہارت چالاکی نہ ہوشیاری کیمیا خاصیات اشیاء کا علم معدنیات کو سونے میں تبدیل کرنے کا علم متقدمین کے نزدیک بعض معدنیات کا دوسرے معدنیات میں تبدیل کرنا ان کے نزدیک علم الکیمیا اس علم کو کہا جاتا ہے جس کے ذریعہ بعض معدنیات کے جوہری خواص کو نکال کر ان کی جگہ نئے خواص شامل کئے جائیں ۔ اور خاص طور پر ان کو سونے میں تبدیل کر دیا جائے ۔ متاخرین کے نزدیک وہ علم جس کے ذریعہ اجسام ( عناصر مادیہ ) کے خواص بذریعہ ترکیب وتحلیل معلوم کئے جائیں جو مختلف حالات میں مقررہ قوانین فطرت کے مطابق بدلے رہتے ہیں ۔[5]

اصطلاحی تعریف:

کیمیا (chemistry) سائنس کی وہ شاخ جو مادے کی ترکیب(composition)، ساخت، خواص اور مادوں کے تعاملات (reactions) سے متعلق ہے۔ اس شعبہ علم میں خاص طور پر جوہروں کے مجموعات ؛ مثلا سالمات اور ان کے تعملات، قلموں (crystals) دھاتوں سے بحث کی جاتی ہے۔[6] کیمیا میں ان مذکورہ اشیاء کی ساخت اور پھر ان کی نئے مرکبات میں تبدیلیوں کا مطالعہ اور ان کے تفاعل (interaction) کے بارے میں تحقیق شامل ہے۔ اور جیسا کہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب مادے کا بڑے پیمانے (یعنی سالمات اور قلمیں وغیرہ کے پیمانے) پر مطالعہ کیا جائے گا تو جوہر یا ایٹم یعنی باریک پیمانے پر مادے کا مطالعہ بھی لازمی ہوگا اور یہی وجہ ہے کہ کیمیا میں جوہروں کی ساخت اور ان کے آپس میں تعملات اور روابط کا مطالعہ بھی کیا جاتا ہے۔

علم کیمیا قرآن کی روشنی میں

مادے میں تبدیلیوں کے متعلق

اٰتُوْنِىْ زُبَـرَ الْحَدِيْدِ ۖ حَتّــٰٓى اِذَا سَاوٰى بَيْنَ الصَّدَفَيْنِ قَالَ انْفُخُوْا ۖ حَتّــٰٓى اِذَا جَعَلَـهٝ نَارًا قَالَ اٰتُوْنِـىٓ اُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْرًا[7]

مجھے لوہے کے تختے لا دو، یہاں تک کہ جب دونوں سروں کے بیچ کو برابر کر دیا تو کہا کہ دھونکو، یہاں تک کہ جب اسے آگ کر دیا تو کہا کہ تم میرے پاس تانبا لاؤ تاکہ اس پر ڈال دوں۔

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا دَاوُوْدَ مِنَّا فَضْلًا ۖ يَا جِبَالُ اَوِّبِىْ مَعَه وَالطَّيْـرَ ۖ وَاَلَنَّا لَـهُ الْحَدِيْدَ [8]

اور بے شک ہم نے داؤد کو اپنی طرف سے بزرگی دی تھی، اے پہاڑو ان کی تسبیح کی آواز کا جواب دیا کرو اور پرندوں کو تابع کر دیا تھا، اور ہم نے ان کے لیے لوہا نرم کر دیا تھا۔

وَاَسَلْنَا لَـه عَيْنَ الْقِطْرِ[9]

اور ہم نے اس کے لیے تانبے کا چشمہ بہا دیا تھا

یعنی تانبے کو اس کے معدن میں رقیق سیال کر دیا تاکہ اس سے مصنوعات کے بنانے میں سہولت ہو ۔ پھر وہ منجمد ہو جاتا۔

اس طرح علم کیمیا اپنے علم کی وسعت میں قرآن مجید کا رہین منت ہے جس  نے کیمیا دانوں کو آگے بڑھنے اور اپنے میدان میں تحقیق کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔ ہم اور ہمارا تمام ماحول ترکیبی عمل کے ذریعے خدائی قوانین کے مطابق مختلف عناصر اور مادوں سے تشکیل شدہ ہے ۔آسمانوں اور زمین کی چھ مراحل میں تخلیق اور پانی سے کائنات کی تخلیق بھی خدائی قانون کے ترکیبی اور تغیراتی عمل کو شامل ہے ۔ سورۃ البقرہ کی مندرجہ ذیل آیت نے جو خدائی بپتسمہ کی لامتناہی قوت کی غماز ہے ،کچھ عناصر کو باہم ایک مناسب تناسب سے کیمیائی بپتسمہ کے متعلق کیمیادانوں کو ضرور اشارہ کیا ہوگا۔

صِبْغَةَ اللّـٰهِ ۖ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّـٰهِ صِبْغَةً ۖ وَّنَحْنُ لَـه عَابِدُوْنَ[10]

اللہ کا رنگ، اللہ کے رنگ سے اور کس کا رنگ بہتر ہے، اور ہم تو اسی کی عبادت کرتے ہیں۔

مٹی میں موجود مختلف مواد میں جو کیمیائی تغیر و تبدیل ہوتا ہے اس کے تحت انسان کو مٹی سے پیدا کیا گیا ۔ مندرجہ ذیل آیات انسان کے تخلیقی عمل پر توجہ دینے کی دعوت دے رہی ہے۔

هُوَ الَّـذِىْ خَلَقَكُمْ مِّنْ طِيْنٍ ثُـمَّ قَضٰٓى اَجَلًا ۖ[11]

اللہ وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر ایک وقت مقرر کر دیا

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَـمَاٍ مَّسْنُونٍ[12]

اور البتہ تحقیق ہم نے انسان کو بجتی ہوئی مٹی سے جو سڑے ہوئے گارے سے تھی پیدا کیا۔

وَاللّـٰهُ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُـمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُـمَّ جَعَلَكُمْ اَزْوَاجًا ۚ [13]

اور اللہ ہی نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے پھر تمہیں جوڑے بنایا

بے جان مادوں کے کیمیائی رد عمل سے ایک نئی جان یعنی انسان کیسے وجود میں آیا ؟ مٹی کے وہ کون سے اجزائے ترکیبی تھے جن سے انسان بنا ۔اور ان مادوں کے وہ کون سے تغیرات تھے جن سے یہ عجیب و نادر مخلوق پیدا ہوئی۔ یہ اور اس قسم کے دیگر سوالات نے ماہرین علم البشر اور کیمیا دانوں کو پریشان کیا ہوا اور انہیں ان کا جواب ڈھونڈنے کی طرف راغب کیا ہوا گا۔ کہ دو یا دو سے زائد مادوں کے آمیزے سے زندگی کیسے پیدا ہو گئی۔ مندرجہ ذیل آیات قرآنی انہیں تجربات کرنے میں تحریک دی ہو گی ۔

اِنَّ اللّـٰهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰى ۖ يُخْرِجُ الْحَىَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَيِّتِ مِنَ الْحَىِّ[14]

بے شک اللہ دانے اور گٹھلی کا پھاڑنے والا ہے، مردہ سے زندہ کو نکالتا ہے اور زندہ سے مردہ کو نکالنے والا ہے۔

قُلْ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ اَمَّنْ يَّمْلِكُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَمَنْ يُّخْرِجُ الْحَىَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَىِّ وَمَنْ يُّدَبِّـرُ الْاَمْرَ[15]

کہو تمہیں آسمان اور زمین سے کون روزی دیتا ہے یا کانوں اور آنکھوں کا کون مالک ہے اور زندہ کو مردہ سے کون نکلتا ہے اور مردہ کو زندہ سے کون نکلتا ہے اور سب کاموں کا کون انتظام کرتا ہے۔

اس قسم کی قرآنی آیات مختلف اجزائے ترکیبی کے ذریعے زندگی کی مزید شکلوں کے معلوم کرنےکی تحریک دیتی ہے  لہذا یہ آیات لازمی طور پر انسانی کوشش اور تحقیق کو اس سمت ابھارنے میں محرک کا کام کرتی ہے ۔

علاوہ ازیں آئے دن کے مشاہدات جن کا حوالہ سورۃ البقرہ اور سورۃ آل عمران کی مندرجہ ذیل آیات میں ہےانسانی تجسس کو عناصراور مختلف مادوں کی کیمیا کے مطالعہ کرنے کی طرف تحریک دیتے ہیں :۔

وَاِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْاَنْـهَارُ ۚ وَاِنَّ مِنْـهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَآءُ ۚ[16]

اور بعض پتھر تو ایسے بھی ہیں جن سے نہریں پھوٹ کر نکلتی ہیں، اور بعض ایسے بھی ہیں جو پھٹتے ہیں پھر ان سے پانی نکلتا ہے۔

آسمانوں اور زمین کی تخلیق کو اس آیت میں پیش کیا گیا ۔

ثُـمَّ اسْتَوٰٓى اِلَى السَّمَآءِ وَهِىَ دُخَانٌ فَقَالَ لَـهَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا اَوْ كَرْهًاۖ قَالَتَآ اَتَيْنَا طَـآئِعِيْ۔فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَـمَاوَاتٍ فِىْ يَوْمَيْنِ وَاَوْحٰى فِىْ كُلِّ سَـمَآءٍ اَمْرَهَا ۚ وَزَيَّنَّا السَّمَآءَ الـدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ وَحِفْظًا ۚ ذٰلِكَ تَقْدِيْـرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِـيْـمِ[17]

پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں تھا پس اس کو اور زمین کو فرمایا کہ خوشی سے آؤ یا جبر سے، دونوں نے کہا ہم خوشی سے آئے ہیں۔پھر انہیں دو دن میں سات آسمان بنا دیا اور اس نے ہر ایک آسمان میں اس کا کام القا کیا، اور ہم نے پہلے آسمان کو چراغوں سے زینت دی اور اسے محفوظ بنایا، یہ زبردست جاننے والے کا کام ہے۔

کیمیائی تغیرات (Chemical Reactions)

1۔ اتصال اور یکجائی  (Combinations)

 یہ اس وقت واقع ہوتا ہے جب دو  یا دو سے زیادہ عناصر یا مرکبات ایک نیا مرکب بنا نے کے لئے باہم مل  جائیں  جیسے ہائیڈوجن H اور آکسیجن O جب آپس میں ملتے ہیں تو پانی بنتا ہے۔ ہائیڈوجن کی آکسیجن کے لئے کشش بہت زیادہ ہے لہذا پانی بننے میں وہ بآسانی آپس میں مل جاتے ہیں تو پانی بنتا ہے۔

قر آن مجید اس اتصال اور یکجائی کے نتیجے میں بننے والے پانی کا ذکر اکثر مقامات پر کرتا ہے مثلا سورۃ الواقعہ کی آیات 68،69 میں اور سورۃ الملک کی آخری آیت 30میں ۔ اَفَرَاَيْتُمُ الْمَآءَ الَّـذِىْ تَشْرَبُوْنَ (68) اَاَنْـتُـمْ اَنْزَلْتُمُوْهُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَ (69) [18]

بھلا دیکھو تو سہی وہ پانی جو تم پیتے ہو۔ کیا تم نے اسے بادل سے اتارا ہے یا ہم اتارنے والے ہیں۔

2۔ تحلیل  Decomposition

اس کا مطلب یہ ہے ایک مرکب کا دو یا دو سے زائد مرکبات یا عناصر میں تبدیل ہو جانا۔ مثلا اگر مرکیورک آکسائیڈ کو گرم کیا جائے تو وہ تحلیل ہو کر پارے اور آکسیجن میں بدل جاتا ہے ۔

قرآن مجید میں تحلیل کی مثال یہ آیت ہے ۔

وَقَالُـوٓا ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّرُفَاتًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِيْدًا۔ قُلْ كُـوْنُـوْا حِجَارَةً اَوْ حَدِيْدًا۔ اَوْ خَلْقًا مِّمَّا يَكْـبُـرُ فِىْ صُدُوْرِكُمْ ۚ فَسَيَقُوْلُوْنَ مَنْ يُّعِيْدُنَا ۖ قُلِ الَّـذِىْ فَطَرَكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ ۚ فَسَيُنْغِضُوْنَ اِلَيْكَ رُءُوْسَهُـمْ وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰى هُوَ ۖ قُلْ عَسٰٓى اَنْ يَّكُـوْنَ قَرِيْبًا۔[19]

اور کہتے ہیں کیا جب ہم ہڈیاں اور چورا ہو جائیں گے پھر نئے بن کر اٹھیں گے۔ کہہ دو تم پتھر یا لوہا ہوجاؤ۔ ا کوئی اور چیز جسے تم اپنے دلوں میں مشکل سمجھتے ہو، پھر وہ کہیں گے ہمیں دوبارہ کون لوٹائے گا، کہہ دو وہی جس نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے، پھر تمہارے سامنے سروں کو ہلا کر کہیں گے کہ وہ کب ہوگا، کہہ دو شاید وہ وقت بھی قریب آ گیا ہو۔

3-استبدال اور عوض (Substitution or Replacement)

یہ اس وقت ہوتا ہے جب کسی مرکب میں کچھ عناصر ضائع ہو کر دوسرے عناصر اس کی جگہ لے لیتے ہیں ۔ قرآن مجید میں اس کی مثال یہ آیت ہے۔

كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُهُـمْ بَدَّلْنَاهُـمْ جُلُوْدًا غَيْـرَهَا لِيَذُوْقُوا الْعَذَابَ ۗ [20]

جس وقت ان کی کھالیں جل جائیں گی تو ہم ان کو اور کھالیں بدل دیں گے تاکہ عذاب چکھتے رہیں۔

یعنی یہ نہ سمجھنا کہ کھال جب جل جائے گی تو اس میں مزید درد کا ادراک ہی کہا ں باقی رہے گا نہیں بلکہ درد کا احساس ہر دم تازہ رہوتا رہے گا اور جلد کبھی بھی بے حس نہیں ہو پائے گی ۔ آخرت میں خواص اشیاء کو دنیا کے خواص طبعی پر قیاس کرنا یوں بھی کمال بے دانشی ہے۔

4-تحلیل  (Dissolution)

کسی مائع کے جامد اور ٹھوس حصے کا غائب ہو جاجانا۔

قُلْ اَرَاَيْتُـمْ اِنْ اَصْبَحَ مَآؤُكُمْ غَوْرًا فَمَنْ يَّاْتِيْكُمْ بِمَآءٍ مَّعِيْنٍ[21]

کہہ دو بھلا دیکھو تو سہی اگر تمہارا پانی خشک ہو جائے تو وہ کون ہے جو تمہارے پاس صاف پانی لے آئے گا۔

5-عنصر Elements

زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَآءِ وَالْبَنِيْنَ وَالْقَنَاطِيْـرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ۗ ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الـدُّنْيَا ۖ وَاللّـٰهُ عِنْدَهٝ حُسْنُ الْمَآبِ[22]

لوگوں کو مرغوب چیزوں کی محبت نے فریفتہ کیا ہوا ہے جیسے عورتیں اور بیٹے اور سونے اور چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے اور نشان کیے ہوئے گھوڑے اور مویشی اور کھیتی، یہ دنیا کی زندگی کا فائدہ ہے اور اللہ ہی کے پاس اچھا ٹھکانہ ہے۔

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا دَاوُوْدَ مِنَّا فَضْلًا ۖ يَا جِبَالُ اَوِّبِىْ مَعَهٝ وَالطَّيْـرَ ۖ وَاَلَنَّا لَـهُ الْحَدِيْدَ [23]

اور بے شک ہم نے داؤد کو اپنی طرف سے بزرگی دی تھی، اے پہاڑو ان کی تسبیح کی آواز کا جواب دیا کرو اور پرندوں کو تابع کر دیا تھا، اور ہم نے ان کے لیے لوہا نرم کر دیا تھا۔

وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيْحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَّّرَوَاحُهَا شَهْرٌ ۖ وَاَسَلْنَا لَـهٝ عَيْنَ الْقِطْرِ ۖ وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ يَّعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ بِاِذْنِ رَبِّهٖ ۖ وَمَنْ يَّزِغْ مِنْـهُـمْ عَنْ اَمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ السَّعِيْـرِ [24]

اور ہوا کو سلیمان کے تابع کر دیا تھا جس کی صبح کی منزل مہینے بھر کی راہ اور شام کی منزل مہینے بھر کی راہ تھی، اور ہم نے اس کے لیے تانبے کا چشمہ بہا دیا تھا، اور کچھ جن اس کے آگے اس کے رب کے حکم سے کام کیا کرتے تھے، اور جو کوئی ان میں سے ہمارے حکم سے پھر جاتا تھا تو ہم اسے آگ کا عذاب چکھاتے تھے۔

وَاللّـٰهُ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِـهَا ۚ اِنَّ فِىْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَّسْـمَعُوْنَ [25]

اور اللہ نے آسمان سے پانی اتارا پھراس سے مردہ زمین کو زندہ کر دیا، اس میں ان لوگوں کے لیے نشانی ہے جو سنتے ہیں۔

ایٹم کا تصور قرآن میں

ایٹم  Atom

کسی کیمیائی عنصرکا نہایت ہی قلیل زرہ جو عام طور پر اپنا وجود بر قرار رکھ سکتا ہے ایٹم کہلاتا ہے۔

ایٹمز انتہائی باریک ہوتے ہیں ۔دس کروڑ ایٹمز کو اگر ایک ساتھ رکھا جائے تو وہ ایک انچ لمبی سطر بنائیں گے۔ ان لا تعداد ذرات میں سے پروٹان، نیوٹران اور الیکٹران تین ایٹم ایسے ہیں  جن کی اہمیت کو دھاتوں کے کیمیائی خواص کی توضیح میں تسلیم کیا گیا ہے۔

انسانی اعمال کے حوالے سے قرآن مجید نے ایٹمز بلکہ ان سے بھی کم و بیش مادے کا ذکر یوں کیا ہے۔

اِنَّ اللّـٰهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ ۖ [26]

بے شک اللہ کسی کا ایک ذرہ برابر بھی حق نہیں رکھتا،

وَمَا يَعْزُبُ عَنْ رَّبِّكَ مِنْ مِّثْقَالِ ذَرَّةٍ فِى الْاَرْضِ وَلَا فِى السَّمَآءِ وَلَآ اَصْغَرَ مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْبَـرَ اِلَّا فِىْ كِتَابٍ مُّبِيْنٍ[27]

اور تمہارے رب سے ذرہ بھر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں، اور نہ کوئی چیز اس سے چھوٹی اور نہ بڑی مگر کتاب روشن میں ہے۔

يَا بُنَىَّ اِنَّهَآ اِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَـتَكُنْ فِىْ صَخْرَةٍ اَوْ فِى السَّمَاوَاتِ اَوْ فِى الْاَرْضِ يَاْتِ بِـهَا اللّـٰهُ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ لَطِيْفٌ خَبِيْـرٌ[28]بیٹا اگر کوئی عمل رائی کے دانہ کے برابر ہو پھر وہ کسی پتھر کے اندر ہو یا وہ آسمان کے اندر ہو یا زمین کے اندر ہو تب بھی اللہ اس کو حاضر کر دے گا، بے شک اللہ بڑا باریک بین باخبر ہے۔

لَا يَمْلِكُـوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِى السَّمَاوَاتِ وَلَا فِى الْاَرْضِ[29]

وہ نہ تو آسمان ہی میں ذرہ بھر اختیار رکھتے ہیں اور نہ زمین میں

فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْـرًا يَّرَهٝ وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٝ[30]

پھر جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہے وہ اس کو دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہے وہ اس کو دیکھ لے گا۔

کاربن ڈائی آکسائیڈ

سطح سمندر سے کافی اونچائی پر سانس لینا خاصا دشوار ہوتا ہے اور آدمی آکسیجن کی کمی اورکاربن ڈائی آکسائیڈ کی کثرت کی وجہ سے بے آرامی اور اضطراب محسوس کرتا ہے قرآن پاک اس حقیقت کو استعارتا سورۃ الانعام میں یوں بیان کرتا ہے ۔

وَمَنْ يُّرِدْ اَنْ يُّضِلَّـهٝ يَجْعَلْ صَدْرَهٝ ضَيِّـقًا حَرَجًا كَاَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِى السَّمَآءِ ۚ [31]

اور جس کے متعلق چاہتا ہے کہ گمراہ کرے اس کے سینہ کو بے حد تنگ کر دیتا ہے گو کہ وہ آسمان پر چڑھتا ہے



[1] المنجد عربی۔ اردو ص 773

[2] ایضا

[3] ایضا

[4] فیروز اللغات ص 1074

[6] کیمیا 9 پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ لاہور ص 02

[7] سورۃ الکھف آیت 96

[8] سورۃ السباء 10

[9]  سورۃ السباء 12

[10] سورۃ البقرہ 138

[11] سورۃ الانعام آیت 02

[12] سورۃ الحجر 26

[13] سورۃ فاطر 11

[14] سورۃ الانعام 95

[15] سورۃ یونس 31

[16] سورۃ البقرہ آیت 74

[17] حم السجدہ 11-12

[18] سورۃ الواقعہ 68،69

[19] سورۃ الاسراء آیت 49-51

[20] سورۃ النساء 56

[21] سورہ الملک 30

[22] آل عمران 14

[23] سورۃ سبا10

[24] سورۃ سبا12

[25] سورۃ الحدید 65

[26] سورۃ النساء40

[27] سورہ یونس 61

[28] سورہ لقمان 16

[29] سورہ سبا 22

[30] سورہ زلزال 7-8

[31] سورۃ الانعام 125

Post a Comment

1 Comments